gound zero mosque
Monday, December 27, 2010
islam and terreism اسلام کے خلاف انتہاءپسندی کی آگ
گراونڈ زیرو مسجد
گراونڈ زیرو مسجد
ایک مرتبہ پھر نائن الیون یوم ستمگر پر ایک نئی کہانی لے کر آیا ہے۔ ہر سال یوم ستمگر پر اسلامی تہذیب کے خلاف ذہن سازی کے لیے طاغوت کو نائن الیون واقعہ کی ایک نئی ڈرامائی کہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس مرتبہ خاص طور پرایسا ڈراما تیارکیا گیا ہے جس کی اقساط آئندہ کئی سال جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ ڈرامے کے ہدایت کار و سرمایہ کار حسب روایت صہیونی گماشتے ہیں۔ ڈرامے کے اداکاروں میں صدر اوباما سمیت نام نہاد بائیں اور دائیں بازو کے بہت سے امریکی سیاست دان شامل ہیں۔ سارہ پالن گلیمر اور انتہاپسندی کا انوکھا امتزاج ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، عوام ہمیشہ کی طرح نادانستہ طور پر ملوث ہیں۔ ڈرامے کا نام ”گراونڈ زیرو مسجد“ رکھا گیا ہے۔ یہ نام تہذیبوں کے تصادم میں ایک نئی اختراع شدہ اصطلاح ہے۔ گراونڈ زیرو مسجد کا عنوان سنتے ہی ذہن میں تین چیزیں ابھرتی ہیں: واقعہ نائن الیون، اسلام، اور دہشت گردی۔ ڈرامے کا مرکزی خیال ”دہشت گرد اسلام“ ہے۔ ڈرامے کا مقصد امریکہ میں اچھے مسلمان (یعنی صہیونی ایجنڈے پرچلنے والے) اور برے مسلمان (راسخ العقیدہ) کے درمیان خیلج قائم کرکے برے مسلمان کا نظریاتی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشرتی استحصال اورامریکہ میں اسلام کے خلاف نفرت کی بھٹی کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد اس سچائی کودھندلانا بھی ہے کہ نائن الیون حملہ امریکہ اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر اسلام کے خلاف دہشت زدہ اشتعال تخلیق کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ ڈرامے کا اسٹیج گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر تیار کیا گیا ہے جہاں مسلم ثقافتی مرکز قرطبہ ہاوس (یہ پورا کمیونٹی سینٹر ہوگا جس میں سوئمنگ پول، ریسٹورنٹ، باسکٹ بال کورٹ، لائبریری وغیرہ ہوں گی، مسجد محض ایک ملحقہ حصہ ہوگی) کی تعمیرکا آغازکیا جائے گا اور پھرگیارہ ستمبرکی آمد تک مسجد (قرطبہ ہاوس کے بجائے گراونڈ زیرو مسجد کی اصطلاح کا استعمال اشتعال انگیزی کے لیے موثر ہے) کی تعمیرکا تنازع پیدا کیا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ ایک گروہ مسجد کی تعمیرکے حق میں تیار کیا جائے اوردوسرا مخالفت میں۔ اس طرح گیارہ ستمبر تک واقعہ نائن الیون، اسلام، مسلمان، مسجد، اور دہشت گردی کا مرکب بہرصورت ذہنوں پرنقش ہوجائے۔ ڈرامے کے کرداروں اور اب تک کی اداکاری کا جائزہ لے کر مضمون سمیٹتے ہیں۔ گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر قرطبہ ہاو س کی تعمیر کا بیڑہ سب سے پہلے ”امام“ فیصل عبدالروف نے Cordoba Initiativeکے عنوان سے اٹھایا۔ موصوف امریکہ کی کاونسل برائے خارجہ امورکی مذہبی مشاورتی کمیٹی کے رکن ہیں۔ فیصل عبدالروف کو قرطبہ ہاو س کی تعمیر کے لیے صہیونی طبقے کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں American Society for Muslim Advancement(ASMA) بھرپورتعاون کررہی ہے۔ عبدالروف صاحب ASMA کے بھی مرکزی رکن ہیں۔ غرض ASMAکے تعاون سے دس کروڑ ڈالرکی لاگت سے گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر جگہ خریدی گئی (واضح رہے زیرتعمیر سینٹر نہ تو مسجد ہے اور نہ ہی گراونڈ زیرو پر ہے) جس کے بعد حمایت یافتہ گروہ کا کام شروع ہوگیا۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے ”گراونڈ زیرومسجد“ کی تعمیر کی حمایت کردی۔ سی این این کے میزبان اور نیوزویک کے ایڈیٹر فرید زکریا نے بھی مسجد کی تعمیرکے حق میں ووٹ دے دیا۔ غرض مسجد کی تعمیر کا حمایت یافتہ طبقہ بالکل نمایاں ہوگیا۔ امریکہ کی کاو نسل برائے خارجہ امور دنیا بھر میں امریکی مفادات کی فکری مبلغ ہے، یعنی تہذیبوں کے تصادم میں اسلام کے خلاف سرگرم ہے۔ لہٰذا مسٹر عبدالرو ف بھی گماشتے ہیں۔ ASMAکی تنظیم Rockefeller Brothers, Rockfeller Philanthropy, Carnegie Corporation اور Rockefeller Brothers Fund اورچند ”اچھے والے“ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب صہیونی خاندانوں کے ادارے ہیں۔ بلاشبہ ان کی جانب سے قرطبہ ہاو س کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کا محرک اسلام دشمنی ہے۔ بالخصوص راک فیلر صہیونی خاندان کی انسان اور اسلام دشمنی کی ایک باقاعدہ تاریخ ہے۔ صدربارک اوباما اور فرید زکریا کی اسلام دشمنی بھی کسی تعارف و تفصیل کی محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ یہ تو ثابت ہوا کہ قرطبہ ہاوس کی تعمیر مسجد ِضرارکی مثل ہے جہاں ”اچھے والے“ مسلمانوں کی تعلیمات کی ترویج کا انتظام کیا جائے گا۔ قرطبہ ہاوس کے حامیوں میں امریکہ کے وزیر برائے نیشن آف اسلام لوئیس فراخان بھی شامل ہیں۔ فراخان کی ’نیشن آف اسلام‘ امریکہ میں افریقی سیاہ فام نسل کا اختراع کردہ مذہب ہے، اس مذہب کے عقائد گمراہ کن ہیں۔ نیشن آف اسلام کی تفصیلات انٹرنیٹ پردستیاب ہیں۔ لوئیس فراخان اور نیشن آف اسلام کے پیروکار صہیونیت کو مطلوب ”اچھے والے“ مسلمان مہیا کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ لوئیس فراخان نے قرطبہ ہاوس کی تعمیرکی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائن الیون حملے میں تمام مذاہب کے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ موصوف نے بیان میں خود کونائن الیون حملے میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا نمائندہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئیے اب مسجد کی تعمیر کے مخالفین پرایک نظر ڈالتے ہیں۔ میڈیا سروے کے مطابق امریکہ کے ستّر فیصد عوام مسجد کی تعمیرکے خلاف ہیں۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں: اوّل، میڈیا نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ مسجد گراونڈ زیرو پر تعمیر ہورہی ہے جبکہ زیرتعمیر emart گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر ہے۔ دوم، میڈیا نے عوام کوگمراہ کیا ہے کہ مسجد تعمیر ہورہی ہے جبکہ یہ کمیونٹی سینٹر ہے جس کا ایک حصہ نمازیوں کے لیے مختص ہے۔ سوم، میڈیا نے عوام سے کہا ہے کہ مسجد کی فنڈنگ انتہا پسند مسلمان اور ایران کررہا ہے جبکہ قرطبہ ہاوس کی فنڈنگ صہیونی اداروں نے کی ہے۔ نتیجتاً عوام ہمیشہ کی طرح گمراہ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ساٹھ فیصد امریکی عوام نے میڈیا رپورٹس پر انحصار کرکے مسجد کے خلاف رائے قائم کی ہے۔ بالکل اسی طرح ہر پانچ میں سے ایک امریکی صدراوباما کو مسلمان سمجھتا ہے، یعنی امریکی قوم بے خبر ہجوم ہے، یہ ہجوم اہل الرائے نہیںہوسکتا۔ کارپوریٹ میڈیا تواتر سے امریکہ میں اسلامو فوبیا کی فضا ہموار کررہا ہے۔ نام نہاد دائیں بازوکی جماعت ری پبلکن کے ارکان بھی میڈیا کے شانہ بشانہ اسلام مخالف ہیجان خیز ماحول کی افزائش میں مصروف ہیں۔ ری پبلکن کی قیادت میں مسجد کی تعمیر کے خلاف جلوس نکالے جارہے ہیں۔ ایسے ہی ایک جلوس نے قرطبہ ہاوس کی تعمیر میں ملوث سیاہ فام کارپینٹرکی پٹائی بھی کی ہے۔ اسی طرح نیویارک میں مسلمان ٹیکسی ڈرائیور احمد شریف پر حملہ ہوا اور مختلف مساجد اور سینٹرز میں تخریب کاری کی کوششیں کی گئیں۔ ایک جانب نیوٹ گنگریچ اور سارہ پالن جیسے دائیں بازو کے سیاستدان قومی فضا خراب کررہے ہیں، اور دوسری جانب پامیلا گیلر اور رابرٹ اسپنسر جیسے بلاگرزآن لائن افراد کوگمراہ کررہے ہیں۔ گنگریچ نے توگیارہ ستمبر کو مسجد کی تعمیر کے خلاف باقاعدہ ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ غرض گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر سجے اسٹیج پر یہ فنکار صہیونی اسکرپٹ پر فن کا مظاہرہ کررہے ہیں اور مسلمان بے بس تماشائیوں کی طرح یہ شیطانی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت یہ ساری صورت حال ’برے والے‘ مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی آپریشن بھی ہے۔ اس آپریشن کا مقصد ’اچھے والے‘ مسلمانوں کو’برے والوں‘ پر سبقت کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ غیر مسلموں میں اسلام کی دہشت اور خوف کی افزائش نائن الیون واقعہ کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ تاثر زندہ رکھنا ہے کہ امریکہ ہر وقت مسلمان دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ قرطبہ ہاوس کی تکمیل اسلامی تہذیب کے خلاف محاذ کا ایک نیا پلیٹ فارم ثابت ہوگی۔ اس پر جہالت بالائے حماقت یہ ہے کہ چرچ آف فلوریڈا نے گیارہ ستمبر کو قرآن حکیم کی بے حرمتی کا عزم کیا ہے، مقصد محض اشتعال انگیزی کے ذریعہ دہشت گرد جنگ کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔ امریکہ میں مقیم راسخ العقیدہ مسلمانوں کی راہیں دن بہ دن مسدود کی جارہی ہیں۔ لہٰذا امریکہ میں مقیم مسلمان قرطبہ ہاوس سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اجتماعی اعلان کریں اور سرکاری یا میڈیا کی سطح پر چھیڑے گئے اشتعال انگیز تہذیبی مباحث سے گریز کریں، اور اپنا موقف بضرورت ازخود پیش کریں۔ مسلمانوں کے لیے حالیہ منظرنامے میں صبر و استقامت کی حکمت عملی ہی مو ثر ترین ہے۔ اس صورت حال میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ بلا اشتعال علمی و عملی پیشرفت کی جائے۔ اسلامی تہذیب پر حملے امریکہ تک محدود نہیں ہیں، اس کا دائرہ تمام صہیونی زیراثر علاقوں میں پھیل رہا ہے۔ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں میں ہر مسلمان کے لیے بہترین حکمت عملی ایمانِ محکم، نیک عمل، حق کی تلقین، اور صبر کی تاکید ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)