Monday, December 27, 2010

islam and terreism اسلام کے خلاف انتہاءپسندی کی آگ

اسلام کے خلاف انتہاءپسندی کی آگ

ای میل چھاپیے پی ڈی ایف
اہلِ مغرب جدیدیت کے مہلک نتائج رونما ہونے تک مختلف لادین فلسفوں میں منتشر رہے۔ انیسویں صدی کے اواخر تک امریکہ و یورپ میں لوگ سائنس اور فلسفہ کی تباہ کاریوں سے دل برداشتہ ہوکر مذہبی بنیادوں کی جانب ایک بار پھر مائل ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب عیسائی اور لبرل طبقات میں شدید نظریاتی کشمکش کا آغاز ہوا۔ امریکہ و یورپ کی معیشت پر قابض صہیونی منصوبہ ساز دونوں طبقات کی علمی و عملی پیشرفت کا مشاہدہ کررہے تھے اور مستقبل کی ترجیحات طے کررہے تھے۔ امریکہ میں جان ڈربی پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی نظریاتی تربیت پر مامور تھا، یہ شخص صہیونی سرمایہ کاروں کا آلہ کار تھا، اس نے عبرانی یعنی یہودی روایات میں لپٹی عیسائیت کی تعلیمات عام کیں، عیسائیت کی رائج تعلیمات میں یہودی عقائد کی پیوندکاری کی، قدامت پرست عیسائی بنیاد پرستی کا نظریہ تخلیق کیا گیا۔ جان ڈربی کے پیروکار نظریہ ہزاریہ Millenarianism (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا ہزاریہ، حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ، اور دنیا کے اختتام پر یقین) پر ایمان لائے اور امریکہ کے سیکولر نظام کو چیلنج کرنے لگے۔ بنیاد پرستی (Fundamentalism) کی اصطلاح قدامت پرست پروٹسٹنٹ عیسائیوں ہی کی اختراع تھی۔ یہ بنیاد پرست حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پہلے سیکولر جدیدیت کی جڑیں اکھاڑ کر صہیونیت زدہ عیسائی تعلیمات کی ترویج کا عزم کرچکے تھے۔ جبکہ دیگر عیسائی فرقے اس دوران بھی جدیدیت کی اقدار سے مرعوب اور ریاست اور مذہب کی علیحدگی کے قائل رہے۔ Evangelism یعنی عیسائیت کا پوری دنیا میں بزور طاقت نفاذ بھی اسی تعلیمی سلسلے کی کڑی تھی۔ تاہم ابھی عیسائیت کا یہ صہیونی ورژن ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا۔ سب سے پہلے Millenarianism یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ِثانیہ کا عقیدہ ذہنوں میں بٹھایا گیا، پھر Presbyterians یعنی سیاسی نظام میں چرچ کے کردار کو ازسرنو زندہ کیا گیا، اور بتدریج صہیونی عزائم میں لپٹے Evangelism کی سیاسی برتری و حکمرانی امریکہ و یورپ میں رائج ہوئی۔ جان ڈربی کے شاگرد ڈوائٹ موڈی نے 1886ءمیں سیکولر نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے شکاگو میں Moody Bible Instituteکی بنیاد رکھی، جس کے بعد پورے امریکہ میں صہیونی سرمایہ کاروں کے تعاون سے قدامت پرست پروٹسٹنٹ فرقہ کے اداروں کا جال بچھ گیا۔ ڈوائٹ موڈی کو امریکہ میں بنیاد پرستی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ابتدا میں پروٹسٹنٹ ادارے Presbyterians (وہ عیسائی جو چرچ کی حکومت پر یقین رکھتے ہیں) اور Premilenarianists (نئے ہزاریے سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منتظر عیسائی) تک محدود رہے۔ درحقیقت عام مذہبی شخص کے لیے سیکولر دنیا میں یہ عیسائی شناخت کھوجنے کی کاوش تھی۔ 1908ءمیں لاس اینجلس میں بائبل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ آئندہ چند برسوں میں قدامت پرستوں نے The Fundamentals کے عنوان سے 30لاکھ کتابچے پورے امریکہ کے بااثر طبقے میں مفت تقسیم کیے۔ اس کتابچہ میں عیسائیت کی مسخ شدہ رائج تعلیمات کا پرچارکیا گیا اور انجیل کے ازسرنو مطالعے پر زور دیا گیا۔ دوسری جانب جان ڈربی کا ایک اور شاگرد اور جرائم پیشہ پروٹسٹنٹ عیسائی سائرس اسکوفیلڈ منظر پر ابھرا۔ یہ شخص صہیونی سرمایہ کاروں اور اشرافیہ کے لوٹس کلب کا رکن تھا۔ سائرس نے صہیونی معاونین کی اعانت سے عیسائی مبلغ کا لائسنس حاصل کیا۔ صہیونیوں کے ہاتھ ایک مجرمانہ ذہنیت وکردار کا شرانگیزگماشتہ لگ گیا تھا۔ یہ شخص عیسائی رائج تعلیمات میں عبرانی روایات و حوالہ جات کی مسلمہ و مستند حیثیت مستحکم کرنے میں کامیاب ہوا۔1895 ءتک سائرس ڈوائٹ موڈی چرچ کا پادری بن چکا تھا۔ سائرس اسکوفیلڈ اور صہیونی ساتھیوں نے انجیل میں عبرانی حوالہ جات سرایت کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا۔ لوٹس کلب کے صہیونی ارکان سیموئیل گومپرز، ابراہم اسٹراس، برنرڈ باروخ، اور جیکب شیف نے Scofield Bible Reference Book کی تشکیل و اشاعت کے لیے ایک ایک ڈالر اپنی جیب سے ادا کیا۔ عیسائی مذہب کی مقدس کتاب کی اشاعت کے لیے صہیونیوں کی سرمایہ کاری کا کیا جواز تھا؟ اس سوال کے جواب میں حالیہ انتہا پسند عیسائیت کے اسباب پوشیدہ ہیں۔ اسکوفیلڈ بائبل میں عبرانی حوالہ جات کی بھرمار نے صہیونی عیسائیت کی تخلیق شروع کردی جس نے بتدریج پوری عیسائی برادری کو انتہا پسندی کی آگ میں دھکیل دیا۔ سرکاری طور پر پورے امریکہ کے تمام تعلیمی اداروں میں اسکوفیلڈ بائبل حوالہ جات کو معیاری سند کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ یہان تک کہ قدامت پرست پروٹسٹنٹ اداروں سے ایک انتہا پسند عیسائی نسل تیار ہوئی اور صہیونیت زدہ عیسائیت کا نظریہ جڑ پکڑگیا۔ اس سے قبل عبرانی حوالہ جات کی قطعی سرکاری و معیاری سند متعین نہیں تھی۔ عیسائیت کا یہ صہیونی ورژن امریکہ کے سیاسی و معاشرتی نظام میں مستحکم ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ سیاست، معاشرت، اور معیشت کے بعد عیسائی مذہب بھی صہیونیوں کی مکمل گرفت میں آگیا۔ عبرانی یعنی اسرائیلی حوالہ جات میں Rapture یعنی عیسائی نجات کا گمراہ کن تصور پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق عیسائیوں کی نجات صرف ارضِ اسرائیل کے تحفظ میں مضمر ہے۔ درحقیقت صہیونیوں نے anti-christ دجال کی آمد کو عیسائیوں کے سامنے خوشنما بناکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام Christکی آمد ِ ثانیہ سے تشبیہ دی ہے۔ ان ہی گمراہ کن اور احمقانہ یہودی حوالہ جات نے عیسائی تعلیمات کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ عیسائی مکمل طور پر صہیونی تعلیمات پر ایمان لے آئے ہیں۔ امریکہ میں ایوینجلسٹوں کی سیاسی حکمرانی نے صہیونیوں کے عزائم کو تقویت دی ہے ،تاہم ایک رکاوٹ ابھی باقی ہے، یعنی اسلام۔ اسلام کی رکاوٹ دور کرنے کے لیے صہیونیوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں انتہاپسند عیسائیوں کی ایک ایسی سیاسی و نظریاتی نسل تیار کی ہے جو اسلام پر مسلسل یلغار کررہی ہے۔ دہشت گردی یعنی اسلام کے خلاف جنگ اس ضمن میں سب سے اہم عسکری پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی، نفسیاتی، معاشی اور تبلیغی حملے بھی تواتر سے جاری ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ، نیٹو، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ، اور این جی اوز اس سلسلے میں اہم معاونین ہیں۔ اسلامی ممالک کے ناجائز و نااہل حکمران صف ِاوّل کے صہیونی آلہ کار ہیں۔ امریکی سیاست میں جارج بش، ڈونلڈ رمزفیلڈ، ڈک چینی اور اب سارہ پالن، جان مک کین، اور بارک اوباما صہیونی مہروں کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اسلام کے خلاف انتہا پسندی کی آگ وائٹ ہاوس سے ٹین ڈاءنگ اسٹریٹ تک جھلسا دینے والی منافرت کی طرح پھیل چکی ہے۔ اسلامی تہذیب سے درپیش یقینی خطرہ صہیونیوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے، اسلامی تہذیب کو کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ پوری نیٹو اٹھاکر لایعنی جنگ میں جھونک دی گئی ہے۔ اسلام کے خلاف اشتعال انگیزی انتہائی پستی میں اتر چکی ہے۔ کہیں اسلام کے مینارے کھٹک رہے ہیں، کہیں پردہ مساوات کے جھوٹے دعووں کو بے پردہ کررہا ہے۔ قرآن حکیم کی بے حرمتی کرکے اپنے تئیں اللہ کو عاجز کرنے کی احمقانہ اور جاہلانہ کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ میں تو اسلام کی بیخ کنی کی خاطر صہیونیوں نے خود ہی کروڑوں ڈالر کی مسجد کی تعمیر کا پروپیگنڈا ترتیب دیا اور خود ہی مسجد کی مخالفت کا ڈراما رچا کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان عالمی خونریز تصادم کی راہ بھی ہموار کی۔ ہالینڈ کا وزیر گیرٹ ولڈر اسلام مخالف ہیرو کے طور پر داد وصول کرنے امریکہ پہنچ جاتا ہے، پوپ بینی ڈکٹ شانِ رسالت کی توہین کرکے صہیونیوں سے تھپکیاں وصول کرتا ہے، بلیک واٹر کا ایرک پرنس کرائے کی صلیبی فوج تیار کرکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت بجالاتا ہے، پادری ٹوری جونز صہیونیوں کے اشاروں پر شرانگیز اعلانات کرتا ہے۔ یہ تمام رویّے عیسائیت میں صہیونیت زدہ تعلیمات کی شیطانی پیوند کاری کا نتیجہ ہیں۔ عیسائی تہذیب صہیونی آلہ کار بن چکی ہے، تاہم کیتھولک اور عام لادین طبقہ اب بھی انتہا پسندی کی صہیونی لہر سے کسی حد تک محفوظ ہے، اور یہی طبقہ مسلمانوں کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ صہیونیت کے نظریاتی اور انتہاپسند ورژن سے محفوط عیسائی، سوشلسٹ اور لادین افراد تک اسلام کی سچائی پہنچانا مسلمانوں کی اہم ترجیح ہونی چاہیے۔ مسلمان اگر معذرت خواہانہ طرزعمل ترک کرکے بلا اشتعال حق گوئی کا مظاہرہ کریں تو صہیونیت کے انتہاپسند طوفان کا رخ موڑا جاسکتا ہے

گراونڈ زیرو مسجد

گراونڈ زیرو مسجد

ای میل چھاپیے پی ڈی ایف
ایک مرتبہ پھر نائن الیون یوم ستمگر پر ایک نئی کہانی لے کر آیا ہے۔ ہر سال یوم ستمگر پر اسلامی تہذیب کے خلاف ذہن سازی کے لیے طاغوت کو نائن الیون واقعہ کی ایک نئی ڈرامائی کہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس مرتبہ خاص طور پرایسا ڈراما تیارکیا گیا ہے جس کی اقساط آئندہ کئی سال جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ ڈرامے کے ہدایت کار و سرمایہ کار حسب روایت صہیونی گماشتے ہیں۔ ڈرامے کے اداکاروں میں صدر اوباما سمیت نام نہاد بائیں اور دائیں بازو کے بہت سے امریکی سیاست دان شامل ہیں۔ سارہ پالن گلیمر اور انتہاپسندی کا انوکھا امتزاج ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، عوام ہمیشہ کی طرح نادانستہ طور پر ملوث ہیں۔ ڈرامے کا نام ”گراونڈ زیرو مسجد“ رکھا گیا ہے۔ یہ نام تہذیبوں کے تصادم میں ایک نئی اختراع شدہ اصطلاح ہے۔ گراونڈ زیرو مسجد کا عنوان سنتے ہی ذہن میں تین چیزیں ابھرتی ہیں: واقعہ نائن الیون، اسلام، اور دہشت گردی۔ ڈرامے کا مرکزی خیال ”دہشت گرد اسلام“ ہے۔ ڈرامے کا مقصد امریکہ میں اچھے مسلمان (یعنی صہیونی ایجنڈے پرچلنے والے) اور برے مسلمان (راسخ العقیدہ) کے درمیان خیلج قائم کرکے برے مسلمان کا نظریاتی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشرتی استحصال اورامریکہ میں اسلام کے خلاف نفرت کی بھٹی کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد اس سچائی کودھندلانا بھی ہے کہ نائن الیون حملہ امریکہ اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر اسلام کے خلاف دہشت زدہ اشتعال تخلیق کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ ڈرامے کا اسٹیج گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر تیار کیا گیا ہے جہاں مسلم ثقافتی مرکز قرطبہ ہاوس (یہ پورا کمیونٹی سینٹر ہوگا جس میں سوئمنگ پول، ریسٹورنٹ، باسکٹ بال کورٹ، لائبریری وغیرہ ہوں گی، مسجد محض ایک ملحقہ حصہ ہوگی) کی تعمیرکا آغازکیا جائے گا اور پھرگیارہ ستمبرکی آمد تک مسجد (قرطبہ ہاوس کے بجائے گراونڈ زیرو مسجد کی اصطلاح کا استعمال اشتعال انگیزی کے لیے موثر ہے) کی تعمیرکا تنازع پیدا کیا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ ایک گروہ مسجد کی تعمیرکے حق میں تیار کیا جائے اوردوسرا مخالفت میں۔ اس طرح گیارہ ستمبر تک واقعہ نائن الیون، اسلام، مسلمان، مسجد، اور دہشت گردی کا مرکب بہرصورت ذہنوں پرنقش ہوجائے۔ ڈرامے کے کرداروں اور اب تک کی اداکاری کا جائزہ لے کر مضمون سمیٹتے ہیں۔ گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر قرطبہ ہاو س کی تعمیر کا بیڑہ سب سے پہلے ”امام“ فیصل عبدالروف نے Cordoba Initiativeکے عنوان سے اٹھایا۔ موصوف امریکہ کی کاونسل برائے خارجہ امورکی مذہبی مشاورتی کمیٹی کے رکن ہیں۔ فیصل عبدالروف کو قرطبہ ہاو س کی تعمیر کے لیے صہیونی طبقے کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں American Society for Muslim Advancement(ASMA) بھرپورتعاون کررہی ہے۔ عبدالروف صاحب ASMA کے بھی مرکزی رکن ہیں۔ غرض ASMAکے تعاون سے دس کروڑ ڈالرکی لاگت سے گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر جگہ خریدی گئی (واضح رہے زیرتعمیر سینٹر نہ تو مسجد ہے اور نہ ہی گراونڈ زیرو پر ہے) جس کے بعد حمایت یافتہ گروہ کا کام شروع ہوگیا۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے ”گراونڈ زیرومسجد“ کی تعمیر کی حمایت کردی۔ سی این این کے میزبان اور نیوزویک کے ایڈیٹر فرید زکریا نے بھی مسجد کی تعمیرکے حق میں ووٹ دے دیا۔ غرض مسجد کی تعمیر کا حمایت یافتہ طبقہ بالکل نمایاں ہوگیا۔ امریکہ کی کاو نسل برائے خارجہ امور دنیا بھر میں امریکی مفادات کی فکری مبلغ ہے، یعنی تہذیبوں کے تصادم میں اسلام کے خلاف سرگرم ہے۔ لہٰذا مسٹر عبدالرو ف بھی گماشتے ہیں۔ ASMAکی تنظیم Rockefeller Brothers, Rockfeller Philanthropy, Carnegie Corporation اور Rockefeller Brothers Fund اورچند ”اچھے والے“ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب صہیونی خاندانوں کے ادارے ہیں۔ بلاشبہ ان کی جانب سے قرطبہ ہاو س کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کا محرک اسلام دشمنی ہے۔ بالخصوص راک فیلر صہیونی خاندان کی انسان اور اسلام دشمنی کی ایک باقاعدہ تاریخ ہے۔ صدربارک اوباما اور فرید زکریا کی اسلام دشمنی بھی کسی تعارف و تفصیل کی محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ یہ تو ثابت ہوا کہ قرطبہ ہاوس کی تعمیر مسجد ِضرارکی مثل ہے جہاں ”اچھے والے“ مسلمانوں کی تعلیمات کی ترویج کا انتظام کیا جائے گا۔ قرطبہ ہاوس کے حامیوں میں امریکہ کے وزیر برائے نیشن آف اسلام لوئیس فراخان بھی شامل ہیں۔ فراخان کی ’نیشن آف اسلام‘ امریکہ میں افریقی سیاہ فام نسل کا اختراع کردہ مذہب ہے، اس مذہب کے عقائد گمراہ کن ہیں۔ نیشن آف اسلام کی تفصیلات انٹرنیٹ پردستیاب ہیں۔ لوئیس فراخان اور نیشن آف اسلام کے پیروکار صہیونیت کو مطلوب ”اچھے والے“ مسلمان مہیا کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ لوئیس فراخان نے قرطبہ ہاوس کی تعمیرکی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائن الیون حملے میں تمام مذاہب کے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ موصوف نے بیان میں خود کونائن الیون حملے میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا نمائندہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئیے اب مسجد کی تعمیر کے مخالفین پرایک نظر ڈالتے ہیں۔ میڈیا سروے کے مطابق امریکہ کے ستّر فیصد عوام مسجد کی تعمیرکے خلاف ہیں۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں: اوّل، میڈیا نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ مسجد گراونڈ زیرو پر تعمیر ہورہی ہے جبکہ زیرتعمیر emart گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر ہے۔ دوم، میڈیا نے عوام کوگمراہ کیا ہے کہ مسجد تعمیر ہورہی ہے جبکہ یہ کمیونٹی سینٹر ہے جس کا ایک حصہ نمازیوں کے لیے مختص ہے۔ سوم، میڈیا نے عوام سے کہا ہے کہ مسجد کی فنڈنگ انتہا پسند مسلمان اور ایران کررہا ہے جبکہ قرطبہ ہاوس کی فنڈنگ صہیونی اداروں نے کی ہے۔ نتیجتاً عوام ہمیشہ کی طرح گمراہ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ساٹھ فیصد امریکی عوام نے میڈیا رپورٹس پر انحصار کرکے مسجد کے خلاف رائے قائم کی ہے۔ بالکل اسی طرح ہر پانچ میں سے ایک امریکی صدراوباما کو مسلمان سمجھتا ہے، یعنی امریکی قوم بے خبر ہجوم ہے، یہ ہجوم اہل الرائے نہیںہوسکتا۔ کارپوریٹ میڈیا تواتر سے امریکہ میں اسلامو فوبیا کی فضا ہموار کررہا ہے۔ نام نہاد دائیں بازوکی جماعت ری پبلکن کے ارکان بھی میڈیا کے شانہ بشانہ اسلام مخالف ہیجان خیز ماحول کی افزائش میں مصروف ہیں۔ ری پبلکن کی قیادت میں مسجد کی تعمیر کے خلاف جلوس نکالے جارہے ہیں۔ ایسے ہی ایک جلوس نے قرطبہ ہاوس کی تعمیر میں ملوث سیاہ فام کارپینٹرکی پٹائی بھی کی ہے۔ اسی طرح نیویارک میں مسلمان ٹیکسی ڈرائیور احمد شریف پر حملہ ہوا اور مختلف مساجد اور سینٹرز میں تخریب کاری کی کوششیں کی گئیں۔ ایک جانب نیوٹ گنگریچ اور سارہ پالن جیسے دائیں بازو کے سیاستدان قومی فضا خراب کررہے ہیں، اور دوسری جانب پامیلا گیلر اور رابرٹ اسپنسر جیسے بلاگرزآن لائن افراد کوگمراہ کررہے ہیں۔ گنگریچ نے توگیارہ ستمبر کو مسجد کی تعمیر کے خلاف باقاعدہ ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ غرض گراونڈ زیرو سے دو بلاک کے فاصلے پر سجے اسٹیج پر یہ فنکار صہیونی اسکرپٹ پر فن کا مظاہرہ کررہے ہیں اور مسلمان بے بس تماشائیوں کی طرح یہ شیطانی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت یہ ساری صورت حال ’برے والےمسلمانوں کے خلاف نفسیاتی آپریشن بھی ہے۔ اس آپریشن کا مقصد ’اچھے والےمسلمانوں کو’برے والوں‘ پر سبقت کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ غیر مسلموں میں اسلام کی دہشت اور خوف کی افزائش نائن الیون واقعہ کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ تاثر زندہ رکھنا ہے کہ امریکہ ہر وقت مسلمان دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ قرطبہ ہاوس کی تکمیل اسلامی تہذیب کے خلاف محاذ کا ایک نیا پلیٹ فارم ثابت ہوگی۔ اس پر جہالت بالائے حماقت یہ ہے کہ چرچ آف فلوریڈا نے گیارہ ستمبر کو قرآن حکیم کی بے حرمتی کا عزم کیا ہے، مقصد محض اشتعال انگیزی کے ذریعہ دہشت گرد جنگ کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔ امریکہ میں مقیم راسخ العقیدہ مسلمانوں کی راہیں دن بہ دن مسدود کی جارہی ہیں۔ لہٰذا امریکہ میں مقیم مسلمان قرطبہ ہاوس سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اجتماعی اعلان کریں اور سرکاری یا میڈیا کی سطح پر چھیڑے گئے اشتعال انگیز تہذیبی مباحث سے گریز کریں، اور اپنا موقف بضرورت ازخود پیش کریں۔ مسلمانوں کے لیے حالیہ منظرنامے میں صبر و استقامت کی حکمت عملی ہی مو ثر ترین ہے۔ اس صورت حال میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ بلا اشتعال علمی و عملی پیشرفت کی جائے۔ اسلامی تہذیب پر حملے امریکہ تک محدود نہیں ہیں، اس کا دائرہ تمام صہیونی زیراثر علاقوں میں پھیل رہا ہے۔ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں میں ہر مسلمان کے لیے بہترین حکمت عملی ایمانِ محکم، نیک عمل، حق کی تلقین، اور صبر کی تاکید ہے۔